مقتولہ سارہ انعام کون تھیں ؟؟؟ - News Update

News Update

News Update website provides current affairs update about Pakistan and foreign countries. We are also providing fast information regarding latest jobs opportunities. Our aim is to provide you authenticated information round the clock.

Wednesday, September 28, 2022

مقتولہ سارہ انعام کون تھیں ؟؟؟

جُمعہ 23 ستمبر کی صبح اسلام آبادچک شہزادکے علاقے میں ایک فارم ہاؤس میںقتل ہونے والی سارہ انعام کی زندگی کیسی تھی۔

https://www.news38960.com
  Sara Inam Murdered In Islamabad 


اسلام آباد (نیوز اپڈیٹ) سارہ انعام ایک پڑھی لکھی ، اعلیٰ تعلیم یافتہ  اور ایک با صلاحیت خاتون تھیں۔ وہ کینیڈا کی نیشنلٹی ہولڈر تھیں جبکہ حالیہ دنوں میں وہ یو اے ای کی ایک کمپنی میں کام کر رہی تھیں۔  جبکہ شاہنواز سے ان کی شادی تقریباً تین ماہ قبل ہوئی تھی۔

سارہ انعام  کا اندوہناک قتل ان کی شخصیت سے جڑے کسی بھی انسان کے  لیے  صدمے سے کم نہیں ہے۔   ان کے دوست،  رشتہ داراورکولیگزسارہ کی موت کا سن کر انتہائی افسردہ ہیں۔اُن کی ایک دوست سٹیفنی حبیب کا کہنا  ہے کہ میری اُن سے پہلی ملاقات سنہ 2011 میں ہوئی تھی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔  وہ پُرکشش شخصیت کی مالک ایک بےضرر عورت تھیں  وہ اکثر کہتی تھیں  کہ "جب میرے بچے ہوں گے، تو وہ میرے دوست ہوں گے" مگر قسمت کی سِتم ظریفی دیکھیں کہ  وہ یہ وقت  دیکھنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلی گئیں۔

https://www.news38960.com
Sara Inam

سارہ انعام کی ایک اور دوست سارہ دناوی نے کہا ہے کہ  وہ  سوچ بھی نہیں سکتی تھی  کہ سارہ  جیسی لڑکی کا  اس طرح  اندوہناک قتل ہو گا۔  دنیا کو  اس چیز کا علم نہیں ہے  کہ سارہ   انعام کتنی  محنتی، باصلاحیت اور پڑھی لکھی  خاتون تھی۔ ہم انصاف کے لیے  تب تک کھڑے رہیں گے جب تک کہ سارہ کو  انصاف مل نہیں جاتے، اس کے قاتل کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہم قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔  سارہ انعام نے سنہ 2007 میں کینیڈاسے یونیورسٹی آف واٹر لو میں آرٹس اور اکنامکس  کی  ماسٹرز  ڈگری حاصل کی تھی۔  یونیورسٹی آف واٹر لو کو اکنامکس کے حوالے سے  دنیا کےبہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔


سارہ انعام نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد  اپنی پیشہ ورانہ زندگی  کی شروعات  کینیڈا سے ہی بحیثیت جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی تھی۔ سنہ 2010 میں ابو ظہبی کی ایک کمپنی ڈیلوئیٹ میں چار سال تک  بحیثیتِ کنسلٹنٹ  رہیں جبکہ بعد انہیں اسی کمپنی میں سینئر کنسلٹنٹ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتی رہیں۔  اس کے بعد انھوں نے ابوظہبیمیں ہی ایک اور ادارے ایجوکیشن اینڈ نالج  کو جوائن کر لیا۔


ابوظبہی  ایجوکیشن اینڈ نالج  ادارے کے تحت   "تعلیم ہر بچے کے لیے"  جیسا عظیم منصوبہ  بھی سارہ انعام کا مرہونِ منت تھا اور  اسی عظیم  منصوبے کی بدولت ہی پہلی بار  ایک چارٹرڈ سکول قیام کیا گیا۔سنہ 2021 میں سارہ نے ابوظہبی  میں ہی ایک اور ادارے جس کا تعلق معیشت سے تھا  میں جوائننگ کر لی۔ اس ادارے میں رہتے ہوئے انھوں نے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افضائی کے لیے پالیسیاں مرتب کی۔


اُن کی دوست سارہ دناوی سارہ انعام کے بارے میں بتاتے ہوئے  کہتی ہیں کہ جب سارہ انعام  سے ان کی دوستی ہوئی تب  وہ اپنے بہتر  مستقبل  کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں ۔  سارہ  دناوی کا کہنا تھا کہ  وہ  اپنی زندگی میں ناصرف خود کامیاب ہوئیں بلکہ ہمارے حلقہِ احباب میں کئی لوگ صرف سارہ کی کوششوں کی وجہ سے اپنا مستقبل سنوارنے میں کامیاب ہوئے۔

پاکستان کے نامور صحافی ایا زا میر کی بہو کو قتل کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟

سارہ کی ایک کولیگ اور دوست سٹیفنی حبیب کہتی ہیں کہ جب  میں نے   ابوظہبی کی کمپنی ڈیلوئیٹ  میں جاب حاصل کی تو سارہ انعام مجھ سے پہلے ہی اس کمپنی میں کام کر رہی تھیں۔ وہ پُرجوش،  محنتی، اور ذمہ دار شخصیت کی مالک تھیں جو اپنے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں۔ وہ  ایک حقیقی سنہری دل کی مالکہ۔ وہ ایک اور ہی قسم کی شخصیت تھیں جو دنیا میں شاید بہت کم ہوتی ہیں۔ آپ یہاں سے  اندازہ لگا لیں کہ کام کے دوران اگر میرا کھانا یا چائے چھوٹ جاتی اور اس کو پتا چلتا تو وہ پریشان ہو جاتی تھیں۔

 

سارہ کے ایک اور دوست سٹیفن نیش کہتے ہیں کہ  یو اے ای میں ہم سب لوگ کام کی تلاش اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے موجود تھے۔ جہاں ہم لوگ اپنے خاندانوں سے دور ہوتے تھے وہیں سارہ انعام ہمارا سہارا ہوتی تھیں۔

 

سارہ دناوی  کا کہنا تھا کہ  میری سارہ سے دوستی کام کے دوران ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی۔ اس کی مسکراتی ہوئی تصویر ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہی۔ میں اور ہمارے تقریباً دس دوستوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات ایک ساتھ ہی کی تھیں۔

 

سارہ دناوی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا دس دوستوں کا ایک گروپ تھا  جو کہ صرف سارہ انعام کی بدولت ہی بنا تھا ،  انھوں نے بتایا کہ یہ فقط ایک گروپ نہیں بلکہ ایک خاندان تھا جسے ہم نے "دی فیملی"  کا نام دے رکھا تھا۔ ہم دنیا میں جہاں بھی ہوتے اور جو بھی کرتے، لیکن  سال میں ایک مرتبہ ملنے کی ضرور کوشش کرتے تھے اور اس ملاقات کا انتظام سارہ انعام ہی کرتی تھیں۔ ہمارے دوستوں کے گروپ نے ایک ساتھ بہت زیادہ سفر کیے ہیں، عمان سے لبنان اور لبنان  سے  ترکی ،  ہم سب دوست  مختلف میوزیمز اور مختلف  تفریحی مقامات پر  ایک ساتھ  گئے۔

 

سارہ کے دوست  سٹیفن نیش  نے بتایا کہ  سارہ انعام ایک مفکر انسان  تھیں ،  وہ ذہین اور نرم گفتار تھیں۔ وہ اپنے فارغ اوقات میں نان فکشن کتابوں کا مطالعہ کرتی تھیں۔ تاریخ اور سیاست سے لے کر مذہب تک کی تمام کتابیں وہ دلچسپی سے پڑھا کرتی تھیں۔

 

سٹیفنی حبیب کہتی ہیں کہ سارہ انعام کو اپنے خاندان اور ثقافت کا بہت پاس تھا۔ وہ ہمیشہ  سے ہی  اپنے والدین کو خوشی ، محبت و پیار اور  سکون دینا چاہتی تھی۔ سارہ کی ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ اُ س کے والدین  ہمیشہ فخر سے رہیں،  وہ اکثر  و بیشتر اپنے والدین اور دوست احباب سے  ملنے پاکستان اور کینیڈا سفر کرتی رہتی تھیں۔  وہ اپنے والدین کو ابوظہبی اپنے پاس بھی  بلاتی تھیں اور اپنی والدہ  کے لیے خاص طور پر بہت کئیرنگ تھیں جبکہ والدہ بھی ان پٌر جان چھڑکتی تھی۔   

 

سٹیفنی حبیب  نے بتایا کہ  سارہ انعام  اپنی والدہ کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔  وہ اکثر اُن کا ذکر کیا کرتی تھی۔ وُہ اپنی والدہ کی بھی بہت زیادہ  لاڈلی تھی۔ میں جب  بھی  سوچتی ہُوں کہ سارہ  کے والدین کیسے  اپنی  پیاری بیٹی کے ساتھ ہونے والے  اندوہناک واقعے کو برداشت کر رہے ہوں گے تو میرے اپنے  دل میں ہول  سےاُٹھنے لگ جاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment