Surah No-73 Muzammil , Ayat No-6
Translation:
"Doubtlessly the ascending of the night stomp on
(the spirit for love) and stomps all over the tongue (with a solitary heart and
brain)."
Interpretation:
Indeed, "ناشئۃ الیل" is a position of utilization concerning which the reporters and the word reference have four distinct truisms. One saying is that morning meal alludes to the morning meal of oneself, the individual who awakens around evening time.
The subsequent saying is that it implies night hours. As
per third saying, it means to get up around evening time. Furthermore, the
fourth saying is that this word applies when it ascends around evening time,
yet when it ascends. "Hazrat Aisha (R.A) and Mujahid said".
The first word اشد
وطاً'' is utilized,
which implies so wide that these words can't be played in any one expression.
It likewise implies that getting up around evening time for love and
representing quite a while on the grounds that it is against nature and oneself
requests rest around then, so this activity is a "Mujahida"
who has an extraordinary impression of self-concealment and control.
Thusly, the individual who controls himself and can utilize his force in the method of God by overseeing his body and brain, will actually want to all the more immovably vanquish the call of the genuine religion on the planet.
Can work for The subsequent significance is that it is
an exceptionally compelling method for accommodating the heart and the tongue,
on the grounds that at these times there could be no other obstruction between
the devotee and God, and all things considered what an individual says with his
tongue is the voice of the heart.
The third significance is that it is an exceptionally
powerful method for blending one's outward and internal appearance, in light of
the fact that an individual who leaves his rest in the isolation of the evening
and gets up for love will definitely do as such out of truthfulness, there is
no way.
The fourth significance is that since this love is
more imperative to man than the love of the day, by clinging to it, man turns
out to be more undaunted, he can walk all the more solidly in the way of God,
and can bear the troubles of the way with more tirelessness.
Worship God at night |
سورة نمبر 73 ، المزّمل ، آیت نمبر 6
ترجمہ: 'بیشک رات کا اُٹھنا (عبادت کیلئےنفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل اور دِماغ کی یَکسُوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے'
تفسیر:
اصل میں لفظ
"ناشئۃ الیل" استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسرین اور اہل لغت کے چار
مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ سے مرادنفس ناشئہ ہے، یعنی وُہ شخص جو رات
کو اُٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات
کے اوقات ہیں۔ تیسرے قول کے مطابق اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے
کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے پر ہوتا ہے
۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مجاہد
نے اسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے ۔
اصل میں لفظ 'اشد وطاً'
استعمال ہوا ہے جس کے معانی میں اِتنی وُسعَت ہے کہ کسی ایک ہی فقرے میں ان الفاظ
کو ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا
اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے
اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے ۔
اس طریقے سے جو شخص اپنے
آپ پر قابو پا
لے
اور اپنے جسم و ذہن پر تسلط حاصل کر کے اپنی اس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے
پر قادر ہو جائے، وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دین حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے
لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا معنی
یہ
ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کے ان اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان
کوئی دوسرا حائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل
کی آواز ہوتی ہے ۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ
آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ
کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لامحالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا اس میں ریاکاری
کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔
چوتھا مطلب یہ ہے کہ
یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام
کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ،
وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو
زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے ۔
اصل میں اقوم قیلا
ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے۔ لیکن مدعا
یہ ہے کہ اس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ
سکتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا مفہوم
یہ بیان کرتے ہیں کہ "اجدر ان یفقہ فی القران" ، یعنی وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن
میں غور و خوض کرے۔ ( ابو داؤد )
No comments:
Post a Comment