ڈاکٹر قدیر خان اور عالمی خطرات - News Update

News Update

News Update website provides current affairs update about Pakistan and foreign countries. We are also providing fast information regarding latest jobs opportunities. Our aim is to provide you authenticated information round the clock.

Tuesday, October 12, 2021

ڈاکٹر قدیر خان اور عالمی خطرات

پاکستانی ایٹمی سائنسدان  ڈاکٹر عبدالقدیر خان دینا کے لئے کتنے  خطرناک انسان تھے؟

سنہ2003 کی تاریخ 11دسمبر کو برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی 6  اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کےآفسرز کی ایک ٹیم لیبیا میں اسپیشل جہازپر سوار ہونے کو تھی کہ اس ٹیم  کوایک  خاکی لفافوں کا پلندہ تھما دیا گیا۔

https://www.news38960.com/
Dr Abdul Qadeer Khan Pakistani Atomic Scientist   

یہ گروپ  لیبیا  حکام کے ساتھ انتہائی اہم مذاکرات کے ایک خفیہ مشن کے اختتام کے قریب تھا،  جب اُنھوں نے طیارے میں سوار ہو کر ان خاکی لفافوں کو کھولا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان لفافوں میں  وہ اہم شواہد موجود ہیں  جن کی انھیں تلاش تھی۔ ذرائع کے مطابق ان خاکی لفافوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن موجود تھے۔

ان جوہری ہتھیاروں کے  ڈیزائنز کے علاوہ ایٹمی پروگرام سے متعلقہ پرزہ جات پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فراہم کیے تھے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اتوار کی صبح  کو پچاسی  برس کی عمر میں اِس جہانِ فانی سے کُوچ کر چُکے ہیں۔

گذشتہ پچاس برسوں میں عالمی سلامتی کے حوالے سے پاکستانی سائنسدان عبدالقدیر خان ایک اہم ترین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ذاتی شخصیت پوری دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی کے حوالے سے جاری لڑائی میں ٹیکنالوجی رکھنے والے اور اس کو حاصل کرنے والے خواہشمند ممالک آمنے سامنے ہیں،  وہاں  ایک اہم محور تھی۔

سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے ڈاکٹر اے کیو خان کو  کم از کم "اسامہ بن لادن" جتنا خطرناک  قرار دیا تھا۔ جارج ٹینٹ کی جانب سے  یہ رپورٹ اُس وقت پیش کی گئی  جب یہ معلوم ہو چکا تھا کہ' اسامہ بن لادن ' نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈتھے۔

https://www.news38960.com/
  CIA's Director (Former) George Tenet statement against Dr Abdul Qadeer Khan 

درحقیقت اگرچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مغربی ایجنسیوں کے جاسوس عالمی خطرناک آدمی قرار دیتے ہیں  مگر اپنے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انھیں ایک خصوصی قومی ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ امریکن اور برطانوی ایجنسیوں کی اس رپوٹ کے مطابق نہ صرف ان کی شخصیت کی پیچیدگی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے  بلکہ یہ  چیزبھی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کو کِس نظر سے دیکھتی ہے۔

1970کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ میں ایٹمی جاسوس بن کر نہیں آئے تھے لیکن وہ ایک جاسوس بن گئے ہیں۔ وہ سنہ ستر کی دہائی میں نیدرلینڈ میں کام کر رہے تھے،  جب ان کے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان نے  سنہ1971کی جنگ میں شکست کے بعد اور بھارتی  ایٹمی ترقی سے خوفزدہ ہو کرجوہری بم بنانے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔

یاد رہے کہ جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس وقت ایک یورپی کمپنی میں یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز بنانے کے کام میں مشغول تھے۔ جوہری توانائی بنانے  کے لیے افزودہ کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر یورینیم کو ایک حد سے زیادہ افزودہ کیا جائے تو اس سے جوہری  بم  میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے۔

https://www.news38960.com/
Dr Abdul Qadeer Khan Pakistni Atomic Scientist, Hero of Pakistani Nation

ڈاکٹر اے کیو  خان اس دور کے جدید سینٹری فیوجز کے ڈیزائنز کاپی کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اپنے وطن پہنچ کر اُنھوں نے ایک خُفیہ نیٹ ورک ترتیب دیا جس میں بیشتر یورپی پیشہ ور لوگ کام کرتے تھے جو انھیں ایٹمی بم اور سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے اہم ترین اِجزاء "خام مال"  مہیاکرتے تھے۔

ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر نے جوہری  ہتھیاروں کے اجزا فراہم کرنے والے ایک خفیہ نیٹ ورک کو درآمدی سے برآمدی کی طرف موڑ دیا۔   وہ پوری دنیا  میں گُھومنے والی ایکاہم  شخصیت بن گئے اور انھوں نےبہت سے  ممالک کے ساتھ معاہدے اور سودے بھی  کیے۔ جبکہ  ان میں سے بہت سے ممالک کو مغربی ممالک  "باغی ریاستیں" خیال کرتے تھے۔

ایرانی شہر نطنز میں جوہری پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا پروگرام جو حالیہ سالوں میں سخت عالمی سفارتکاری کی ایک  اہم وجہ بنا رہا ہے وہیں اِس کا  ایک اہم حصہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے فراہم کردہ ڈیزائن اورجوہری  مواد سے بنایا گیا تھا۔

ایک ملاقات میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے نمائندوں نے ایران کو ایک ایٹمی پروگرام کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد اور اجزا کی ایک لسٹ مہیا کی تھی جس میں  جوہری چیزوں کی قیمتیں بھی درج تھیں اور ایرانی سرکارکے مطابق مال کا آرڈر بھی  دے سکتے تھے۔

جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شمالی کوریا  کے تقریباً  ایک درجن سے بھی  زیادہ   دورے کیے ، جہاں سے یہ ابہام پیدا  ہواکہ ایٹم کے جوہری ڈیزائین  کے بدلے میں  میزائل ٹیکنالوجی کی مہارت کو حاصل کیا گیا۔ ان سارے مُعاہدوں کے ساتھ ایک اہم راز ہمیشہ رہا کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر  اے کیوخان یہ سب کچھ تن تنہا  کر تے رہے  یا  پِھروہ حکومتِ پاکستان  کے احکامات کے تحت کام کر رہے تھے، خاص طور پر شمالی کوریا کے ساتھ سودے کے معاملے میں۔

پاکستان کے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں کبھی یہ بھی کہا گیا کہ وہ  یہ سب کچھ پیسوں کے لالچ میں کر رہے تھےمگر  یہ اتنا سادہ نہیں ہے جیسے ان پر یہ الزام تراشی کی گئی ۔ وہ اپنے وطن  کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایٹمی  ہتھیاروں پر مغربی ممالک  کی کمزور ملکوں پر   بے جا اثر و رسوخ کو بھی ختم  کرنا   چاہتے تھے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان نے جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر مغربی دنیا کی اجارہ داری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے "مغربی منافقت" قرار دیا تھا اور سوال کیا تھا کہ چند ممالک کو اپنے دفاع اورتحفظ کے لیے جوہری  ہتھیار رکھنے کی اجازت کیوں ہونی چاہیے جبکہ  دوسرے ملکوں  کو کیوں نہیں۔

ایک بار ڈاکٹر صاحب  نے کہا تھا کہ "میں بیوقوف یا  پاگل آدمی  نہیں ہوں،  مغربی مجھے ناپسند کرتے ہیں اور وہ میرے خلاف ہر طرح کے بے بنیاد اورمن گھڑت الزامات لگاتے ہیں کیونکہ میں نے مغربی اسٹرٹیجک منصوبوں کو ہلا کر رکھ دیا  ہے۔"

یاد رہے کہ سی آئی اے اور ایم آئی 6 کی جانب سے پاکستانی عظیم سائنسدان اور قومی ہیرو ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی نگرانی شروع کر دی  گئی تھی، ایجنسیوں نے ان کے دوسرے ممالک کے  دوروں پر نظر رکھنا شروع کر دی تھی۔ یہ دونوں ایجنسیاں اس حد تک پہنچ گئیں تھیں کہ  انھوں نے فون کالز کو ٹیپ کرنا اور پکڑنا شروع کر دیا ، نہ صرف یہ بلکہ وہ ان کے  نیٹ ورک میں گھس گئے تھے  اور اِس کے لیے اُنھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان  کے نیٹ ورک میں مشتمل  لوگوں کو بھاری دولت کی بھی  پیشکش کی تھیں۔  ذرائع کے مطابق نیٹ ورک کے افراد کو  کم از کم 10 لاکھ ڈالرز تک کی بھاری  رقوم  کی بھی پیشکش کی گئیں تاکہ ان افراد  کو اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے اور نیٹ ورک کےتمام  رازوں  کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔

ایک سی آئی اے اہلکار کے مطابق "ہم ان کے گھر ، دفاتر اور کمروں میں موجود تھے"۔   نائن الیون کے حملوں کے بعد خطرہ  انتہائی بڑھ گیا تھا کہ دہشت گرد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہی مُشکل اور پیچیدگی پاکستان سے نمٹنے اور اسے پاکستانی سائنسدان  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ کرنے میں تھی۔

مارچ سنہ 2003 میں جب امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر جوہری  ہتھیاروں کی تیاری کو  وجہ بنا کر  حملہ کر رہے تھے، جبکہ کسی بھی  مہلک ہتھیار کا وجود نہیں نکلا تھا ، تب لیبیا کے رہنما کرنل قذافی نے اپنے ایٹمی پروگرام کے منصوبے سے نجات حاصل کرنے کا  فیصلہ لے لیا تھا۔

یہی پلان  سی آئی اے اور  ایم آئی 6 کے خُفیہ دورے کی وجہ بنا  تھا اور جلد ہی اس معاہدے کے عوامی اعلان کے بعد اس نے امریکہ کو  انتہائی اہم موقع دیا تھا  کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر زور دے سکے  کہ وہ  ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے خلاف کارروائی کا آغآز کرے۔

یاد رہے کہ اسی بات کے ردّعمل میں قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے  گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا  تھا اور انھیں اس حد تک مجبور بھی کر دیا گیا تھا کہ وہ  ٹی وی پر آ کر اعتراف جرم کریں۔ بہت دُکھ کے ساتھ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ  انھوں نے اپنی بقیہ زندگی ایک عجیب  سی صورتحال میں گزاری جہاں انھیں نہ آزادی دی گئی اور نہ قید۔ وہ آج بھی پاکستانی عوام میں ایک قومی ہیرو اور محسن کی حیثیت سے رہتے ہیں ۔ قیامت تک آنے والی پاکستانیوں پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بہت بڑا  احسان ہے۔

No comments:

Post a Comment