لاہور میں دو روز قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے موقع پر حافظ سعید کے رہائش گاہ کے باہر ہائی ویلیو ٹارگٹڈ حملہ۔
تفتیشی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے گھر کے باہرہونے والے دھماکے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لاہور (نیوز اپڈیٹ) لاہور میں دو روز قبل فنانشل ایکشنٹاسک فورس کے موقع پر حافظ سعید کےرہائش گاہ کے باہر ہائی ویلیو ٹارگٹڈ حملہ۔تفتیشی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے گھر کے باہرہونے والے دھماکے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور کی کھوج سیف سٹی کیمروں کی مدد سے لگائی گئی ہے۔حملہ آوروں کی گاڑی
کا فوٹیج ریکارڈ لاہور موٹروے داخلے سے لیکر جائے وقوعہ پر کھڑی ہونے تک
حاصل کر لیا گیا ہے۔
واضح رہےکہ دو روز قبل بدھ والے دن تقریباً گیارہ بجےکار میں بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کے علاوہ 3 اشخاص ہلاک ہو گئے تھے جبکہ تقریباً 2 درجن کے قریب لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس بم دھماکے کی تفتیش محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم (سی ۔ٹی۔ ڈی) کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق بم دھماکے میں ملوث مبینہ شخص کی شناخت ہو گئی تھی جس کے بعد ملزم کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزم لاہور سے کراچی جانے کے لیے جہاز پر سوار ہونے والا تھا۔یاد رہے کہ ابھی تک کسی تنظیم نے بھی بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ۔ جبکہ حملے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بم ایک گاڑی میں لگایا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول آلے کے ذریعے اڑایا گیا۔ اس حملے کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔
بم حملے میں استعمال شدہ گاڑی کا مالک کون تھا۔
![]() |
Bomb Blast in Lahore |
دو روز قبل بدھ کے دن لاہور میں ہونے والے دھماکے میں استعمال شُدہ گاڑی کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور ماضی میں یہ گاڑی جن لوگوں کے استعمال میں رہی ہے اُن کا بھی پتہ چل گیا ہے۔تفتیشی ذرائع کے مطابق حملے میں جو گاڑی استعمال کی گئی ہے وہ ابھی تک خریدنے والے پہلے مالک کے نام پر ہی ہے، جبکہ اسی گاڑی کو اصل مالک کے بعد سات لوگوں نے اوپن لیٹر پرخریدی تھی لیکن کسی نے بھی گاڑی اپنے نام ٹرانسفر نہیں کروائی ۔ سرکاری کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد اس بات کا پتہ چلا ہے گاڑی ابھی بھی پہلے مالک کے نام ہی ہے جو کہ حافظ آباد کا رہنے والا ہے۔ واضح رہے کہ مطلوبہ گاڑی کے پہلے خریدار کے بعد جن لوگوں نے اوپن لیٹر پر گاڑی خریدی ہے ان میں ایک سب انسپکٹر اور ایک وکیل بھی شامل ہیں۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا تھا کہ چند روز قبلآخری مالک نے گاڑی حملہ آور کو بیچی تھی۔ حملے میں استعمال ہونے ولی گاڑی کو سیف سٹی کے کیمروں کی جانچ پڑتال کے بعد تلاش کیا گیا۔ جس سے لاہور موٹر وے سے لیکر حافظ سعید کے گھر کے قریب تک گاڑی کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
حملہ آور کی منزل کیا تھی؟؟؟
ذرائع کے مطابق حافظ سعید کے جس گھر کے قریب دھماکہ ہوا یہ آج سے پندرہ برس پہلے بنایا گیا تھا جس کے 3 داخلی و خارجی راستے ہیں جن پر ان کے اپنے اور پولیس اہلکار ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ حافظ محمد سعید کے گھر جانے والی مین اسٹریٹ میں پولیس کی دوعدد چیک پوسٹ ہیں، 1 چیک پوسٹ توحافظ سعید کے گھر کے بالکل متقابل ہے جبکہ دھماکہ پہلی چیک پوسٹ کے پاس ہوا کیونکہ اس سے آگے جانا حملہ آوروں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ جس دھماکہ کیا گیا وہ حافظ سعید کے گھر سےصرف ڈیڑھ سو میٹر دُوری پر تھی۔ بم اتنی شدت سے پھٹا تھا کہ دھماکے کے بعد گاڑی کے ٹکڑوں کو پانچ سو میٹر تک بکھر ہوئے دیکھا گیا۔
![]() |
Hafiz Saeed |
یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ حالیہ ایّام میں حافظ محمد سعید پاکستان کی جیل میں قید ہیں اور تھانوں میں اُن پر کئی مقدمات درج ہیں ، اتفصیلات کے مطابق اِن تمام مقدمات کی کڑیاں دہشت
گردی اور دہشت گرد طبقے کی مالی طور پر
امداد کے ذمرے میں جا ملتی ہیں۔
یاد رہے کہ سنہ 2008ء میں ممبئی (انڈیا) میں ہونے والے بم دھماکوں کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے حافظ سعید کا نام لیا تھا۔اُن حملوں کے نتیجے میں ایک سو اِکسٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے ۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور امریکہ نے حافظ محمد سعید کا نام کو عالمی انتہا پسندوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ امریکہ نے پہلے سے ہی حافظ محمد سعیدکے نام ساتھ مفرور کا لیبل لگایا ہوا ہے اور اُن کے سر کی قیمت کے بدلے دس ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کے پیشِ نظر لاہور میں ہونے والے حالیہ دھماکے کے بارے مختلف قسم کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ حافظ محمد سعید کو سنہ 2019 میں حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس سے قبل انھیں گھر میں ہی نظر بند کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی جیل میں حافظ محمد سعید کی جان کو خطرے کے پیشِ نظر ان کے حفاظتی دستوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ عام طور پردیکھا گیا ہے کہ جب ایسی صورتِ حال پیش آ جائے تو اسکیورٹی ادارے مجرم کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتے ہیں ، مگر نیوز اپڈیٹ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انھیں ابھی تک کہیں اور منتقل نہیں کیا گیا اور ہ لاہور کی جیل کوٹ لکھپت میں ہی سزا بھگت رہے ہیں۔
اجلاس برائے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف۔اے۔ ٹی۔ایف)
رواں سال ماہ فروری میں ایف ۔اے۔ٹی۔ایف کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کوخاص طور پر تین قِسم کی سفارشات پُوری کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جن میں سب سے پہلے نمبر پر دہشت گردوں پر سزاؤں کا اطلاق کرنا تھا اور دوسرے نمبر پر دہشت گردی میں ملوّث مجرمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا تھا جبکہ تیسرے نمبرپر دہشت گردی میں نامزد کیے گئے افراد کی مالی معاونت کر نے پر پابندیاں لگانا شامل تھیں۔
"فنانشل ایکشن ٹاسک فورس"نے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے دہشت گردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قوانین کے اطلاق کا ثبوت بھی مانگا تھا، تاہم اسلامی جمہوریہ پاکستانی حکومت نے رواں سال مئی میں اس بارے میں دہشت گردی پر رپورٹ جمعکروا دی تھی جس کے مطابق بارہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔
"فنانشل ایکشن ٹاسک فورس" کا اجلاس پاکستانی عوام کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ماہرین کے خیال کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے مزید اقدامات کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ پاکستانی حکومت نے زیادہ تر سفارشات پر پہلے سے ہی عمل درآمد کر رکھا ہے ۔
No comments:
Post a Comment