طالبان نے افغانستان میں پوری طرح کنٹرول سنبھال لیا، افغانستان میں طالبان کا رویہ کیسا ہو گا اور امریکہ کی کیا حکمتِ عملی ہو گی؟؟ اس پورے عمل میں پاکستان کا کیا کردار ہو گا؟؟ جانئیے اس رپورٹ میں
کابل (نیوز اپڈیٹ)مجاہد رحمان کا تعلق افغانستان
کے مشرقی علاقے کے پہاڑی صوبے پکتیکاسے
ہے جو کہ 28 سالہ نوجوان ہیں۔وہ ایک کچے
گھر میں رہنے والے طالبان سب کمانڈر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انھیں یاد نہیں کہ وہ کب
سے امریکی فوجیوں سے لڑ رہے ہیں۔ طالبان سب کمانڈر مجاہد رحمان کا کہنا تھا کہ
گزشتہ 3 برس بہت سخت تھے۔
ذرائع کے مطابق سنہ 2009ء کے آغاز سے لیکر اگست 2010 ء تک انھیں بگرام ایئر بیس میں قید رکھا گیا تھا، جہاں انھیں کابلی حکومت کی انٹیلی جنس
ایجنسی کی جانب سے ٹارچر بھی کیا گیا۔ وہ
ان طالبان دوستوں کےمتعلق تفصیلاً بتاتے ہیں جو قتل
کیے گئے ، معذور ہو گئے یا گرفتار کیے گئے ، انھوں نے ذرائع کو تفصیل سے بتایا کہ کیسے انھیں اور انکے ہم عمر طالبان ساتھی کو صوبہ غزنی میں
ان کے گھر سے بھگایا گیا؟؟ مجاہدرحمان
جیسے کئی جنگجو طالب ایسے ہیں جو امریکیوں کے مخالف جنگ میں جوان ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے یوم آزادی کے
موقع پر جب اشرف غنی افغانستان سے
تاجکستان کی طرف فرار ہو رہے تھے تواسی لمحےافغانستان کے دارالحکومت کابل کے صدارتی محل میں ملا عبدالقیوم ذاکر داخل ہ
ہو رہےتھےجنھوں نے8 سال امریکی جیل
"گوانتا نامو بے" میں قیدکاٹی ۔دوسری جانب اشرف غنی کو جان بچاکر بھاگنے کیلئے محفوظ راستہ
دینے والے عبدالغنی برادر تھے جنھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقریباً آٹھ سال قیدی رہے، امریکی
حکومت عبدالغنی برادر کی امریکہ حوالگی کے
لیے بہت کوششیں کی مگرپاکستانی حکمرانوں نے انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا ۔
طالبان کے بیشتر لوگ مختلف
اوقات میں جیلوں میں قید رہے ہیں۔ وقت کی بے رحمی ملاحظہ فرمائیں کہ کسی کو تختے سے تخت اور کسی کو تخت سے تختے
پر چڑھا دیتا ہے۔یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ صرف9 روز کے اندر سارے افغانستان پر طالبان نے
قبضہ کر لیااور صدر اشرف غنی تاجکستان فرار ہو گئے جبکہ امریکہ کےآخری فوجی کےافغانستان
چھوڑنےمیں ابھی سولہ روز باقی ہیں۔
دوسری جانب ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال گردش کر
رہے ہیں کہ طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک کا مستقبل
کیا ہو گا؟؟ طالبان کی حکومت کس کس ملک کی طرف سے تسلیم کی جائیگی؟؟ افغانستان میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائیگا؟ ؟
اگر ماضی کے جھروکوں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم
ہو گا کہ سنہ1978ء میں جب داؤد حکومت کو
گرایا گیا تھا تب افغانستان کی صورتحال آج
سے بہت زیادہ مختلف تھی۔ تب افغانستان
ایک منتشر ریاست بن چکی تھی ، مگر موجودہ صورتِحال کے پیشِ نظر تجزیہ کاروں کے
نزدیک افغانستان میں ایک بہت قوّی حکومت آنے والی ہے۔
طالبان نے جیسے افغانستان کا کنٹرول
سنبھالا ہے ، انھیں کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حالانکہ میڈیا کے ذریعے خانہ جنگی کی افواہیں پھیلا کر مسلسل پروپیگنڈا
کیا جاتا رہا ہے۔ اگر موجودہ طالبان کی
طاقت کا ماضی کے طالبان سے موازنہ کیاجائے
تو ماضی کے طالبان کو سنہ 1992ء سے لڑتےہوئے4 برسوں میں دارالحکومت کابل تک رسائی ہوئی تھی لیکن حالیہ طالبان کہیں زیادہ پُر اعتماد ہیں اور وہ
انتہائی سوچ سمجھ کر ہر قدم اُٹھا رہے ہیں۔ موجودہ طالبان کی ترجیح اَنارکی پھیلانا نہیں ہے بلکہ امن و سکون کو لوگوں تک پھنچانا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان قیادت لوگوں کوپُر سکون رہنے کی تلقین کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ
موجودہ طالبان حکومت آج سے 20 سال قبل کی
غلطیاں نہ دہراتے ہوئے مغربی تصوّر کو رد
کریں گے۔
تاریخ کے اوراق میں جب امریکی
حکومت کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ہر طرف بے وفائی کا عنصر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے،
پہلے دورِ حکومت میں امریکیوں نے طالبان
سے ،عراق میں صدر صدام سے اور پاکستانی جنرل صدرپرویز مشرف سے بیوفائیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ جبکہ اب اس نازک صورتحال
میں سابق افغانی صدر اشرف غنی سے بھی امریکہ کا رویہ سب کے سامنے ہے، امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا کہنا
تھا کہ امریکہ کی دشمنی سے کہیں زیادہ بدتر
اِس کی دوستی ہے جس کا نظارہ ماضی میں سب دیکھ چُکے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی بات کی جائے تو صاف طور پر
نظر رہا ہے کہ پاکستان،چین،ترکی اور روس
بلا جھجک تسلیم کر لیں گے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ممالک طالبان حکومت کو تسلیم
کر چکے ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ برطانوی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ طالبان سے معاملات طے کریں گے۔لیکن اب
معاملات سات سمندر پار سے طے نہیں کیے جانے چاہیے
بلکہ خطے کے معاملات خطے کے اندر
ہی طے ہونے چاہیے۔
ایران، روس ،چین اورپاکستان کو اپنے خطے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، یہاں اس
بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ امریکہ کی طرف سے پروپیگنڈا لازمی کیا جائے گا ۔امریکہ کا
افغانستان کے پر وپیگنڈا کرنے کے
علاوہ کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے ۔افغانستان کے مفاد میں بھی یہی بہتر ہو گا کہ ملک میں مضبوط حکومت قائم ہو ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کا رویہ کیسا
ہوگا ؟؟پاکستان میں پہنچنے والے افغانی
وفد سے خیال یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ
نظام کا حصہ ہوں گے۔
پاکستان جس انداز میں افغانستان کے لیے پالیسی چلا رہا ہے اسے مزید تقوّیت ملنی چاہیے،
اب آگے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ ؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کو افغانستان
کے ساتھ تجارتی اور انسانی تعلقات کو ہر
صورت میں بحال رکھنا چاہئے۔کیونکہ اگر افغانستان کی اندرونی معاملات میں مشکلات بڑھتی ہیں تو پاکستان کسی کا ساتھ نہ دے، لیکن امریکہ
کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ کوئی نہ کوائی گڑ بڑ ضرورکرے۔
اُمید کی
جا رہی ہے کہ طالبانی حکومت کو تسلیم کرنے
کے لیے پاکستان دنیا کے ساتھ ساتھ چلے گا،
پاکستانی حکومت جلدی میں نہیں ہے۔ یہ تمام معاملات دوحہ (قطر) میں ہی طے پائیں گے،طالبان حکومت
کو تسلیم کرنے میں کوئی بھی ملک پیچھے
نہیں رہے گا ۔ افغانستان میں پاکستانی اور روسی سفارتخانے موجو د رہیں گے جبکہ چین
نے ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا۔امید کی
جا رہی ہے کہ طالبان حکومت مہذب دنیا کے ساتھ مل کر افغانستان
کو مستقبل میں پروان چڑھائیں گے۔
No comments:
Post a Comment