شبِ معراج کے دوران نماز کیسے فرض ہوئی، حدیث کی رُو سے بیان
حدیث شریف نمبر 349 صحیح بخاری شریف
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اُس لمحے میں مکہ مکرمہ میں موجود تھا ۔ پھرحضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کر دیا، پھر اسے آبِ زمزم سے دھویا ۔ پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا جو حِکمت اور ایمان سے بھرا پڑا تھا، اُسے میرے سینہِ انور پررکھ دیا گیا۔ پھرمیرے سینے کو جوڑ دیا گیا ، پھر جبرائیل علیہ السلام نے میرے ہاتھ کو پکڑا اور مجھے آسمان کی جانب لے کر چلے گئے۔
جب ہم پہلے آسمان پر پہنچےتو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھول دو ۔ داروغہ نےسوال کیا کہ آپ کون ہیں؟؟ جواب دیا گیا کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر داروغہ کی طرف سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نےجواب دیا ، ہاں میرے ساتھ محمدﷺ ہیں ۔ داروغہ نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانےکےلیےآپکو بھیجا گیا تھا؟؟ جبرائیل علیہ السلام نےکہا 'جی ہاں'۔
پھرجب دروازہ کھولا گیا تو ہم پہلے آسمان پر گئے، وہاں ہمیں ایک ایسےشخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا جن کے دائیں جانب کچھ لوگوں کےگروہ تھے اور کچھ گروہ بائیں جانب تھے ۔ جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکرا تے اور جب دوسری طرف بائیں جانب نظردوڑاتےتو روتے۔ ان بزرگ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا ، آؤ بہترین آئے ہو۔ صالح نبیؐ اور صالح بیٹے، آپﷺفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جوگروہ ہیں یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں ۔
جو لوگ دائیں طرف براجمان ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں جانب والے لوگوں کی روحیں دوزخی ہیں ۔ اس لیے جب حضرت آدم علیہ السلام اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو خوشی سےمسکراتے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو (غم سے) روتے ہیں، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر دوسرے آسمانکی طرف پہنچ گئے اوردوسرے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھولیں ۔
دوسرے آسمان کے داروغے نے بھی پہلے آسمان کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آنحضرتﷺ نے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، ادریس علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا ۔ البتہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ بیان نہیں کیا ۔ مگراتنا بیان کیا کہ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے آسمان پر ملاقات کی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر پایا ۔
حضرت انسں رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سےگزرے ۔ تو حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کہ آئیں بہترین آئیں ہیں، صالح نبی ہیں اور صالح بھائی ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جبرائیل علیہ السلام سےپوچھا یہ کون ہیں؟؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں ۔ پھرحضرت مُوسیٰ علیہ السلام کے قریب پہنچیں تو انھوں نے فرمایا آئیں بہترین آئے ہیں، صالح نبی اور صالح بھائی ہیں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام ہیں ۔
آپﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچے، تو انھوں نےفرمایا کہ آئیں بہترین آئےہیں، صالح نبی اور صالح بھائی ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جبرائیل علیہ السلام سےپوچھا یہ کون ہیں؟؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ پھر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب پہنچے، تو انھوں نے بھی فرمایا کہ آئیں بہترین آئے ہیں، صالح نبی اور صالح بیٹے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟؟ تو بتایا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔
ابن شہاب نےبتایا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے بتایا کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم بتاتےتھےکہ حضور نبیﷺنے فرمایا ، پھر مجھے حضرت جبرائیل علیہ السلام لے کر آگے چڑھے ، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں قلم کی آوازیں سنی گئی "جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آوازیں تھیں" ابن حزم نے "اپنے شیخ سے" اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ پس اللہ کریم نے میری امت پر 50 وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکمِ الہٰی لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نےسوال کیا کہ آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ نے کیا فرض کیا ہے؟؟ میں (آنحضورﷺ نے) نےبتایا کہ 50 وقت کی نمازیں فرض کی گئی ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نےفرمایاآپ واپس اپنے رب کریم کی بارگاہ میں تشریف لے جائیے ۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی زیادہ نمازوں کو ادا کرنے کی قوّت نہیں رکھتی ۔ میں (حضور نبی کریمﷺ) واپس بارگاہِ رب کریم میں گیا (گئے) تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آیاتوانھیں بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے 1 حصہ کم کر دیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نےفرمایا کہ ایک بار پھر جائیں کیونکہ آپ کی امت میں اس کو بھی برداشت کی قوّت نہیں ہے ۔ پھر میں بارگاہ باری تعالیٰ میں دوبارہ گیا (گئے) ۔ پھر1 حصہ کم کر دیا گیا ۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس دوبارہ پہنچا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں پھر سے جائیے ، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر پائے گی۔ پھر میں کئی بار بارگاہِ رب العزّت میں حاضر ہوا، سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عملی طورپر) 5 ہیں مگر (ثواب کےطور) 50 ( کے مساوی) ہیں ۔ میری باتیں بدلی نہیں جاتیں ۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب میں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھرفرمایا کہ اپنے رب کریم کے پاس جائیے ۔ مگر میں (حضور نبی کریمﷺ) نےفرمایا کہ مجھے اب اپنے رب ذوالجلال سے شرم آتی ہے ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے گئےجو کئی طرح کے رنگوں سے ڈھنکی ہوئی تھی۔ جن کے بابت مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا ، جہاں مجھے موتیوں کے ہار نظر آئے اور میں نے پایا کہ جنت کی مٹی مشک کی ہے ۔
![]() |
Safar e Meraj |
No comments:
Post a Comment