پنجاب ( لاہور ) پولیس کی بڑی کاروائی : اپنے ہی طالب علم سے بدفعلی کرنے والے بزرگ اُستاد مفتی عزیز الرحمان میانوالی سے گرفتار
![]() |
Mufti Aziz ur Rehman confesses to sexually assaulting student |
لاہور (نیوز اپڈیٹ) اپنے ہی شاگرد طالب علم سے زیادتی کرنے والے مبینہ ملزم کا فحش ویڈیو کِلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عدالت میں مقدمہ درج کر لیا گیا تھا، بعد ازاں ملزم نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو رُوپوش کر لیا تھا ۔ جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا پر عوام نے ملزم عزیزالرحمان کی گرفتاری کے لیے مہم کا آغاز کیا ، جس کی بناء پر پولیس پر دباؤ بڑھا۔
ذرائع
کے مطابق حسنین شاہ (ڈی۔ایس۔پی)
کرمنل انویسٹیگیشن سیل ماڈل ٹاؤن لاہور نے بتایا کہ پولیس نے ملزم عزیزالرحمان کو آج میانوالی سے اس کے تین بیٹوں سمیت حراست میں لے لیا ہے ۔ ملزمان نے خود کو میانوالی میں اپنے کسی رشتہ دار کےگھر پناہ لی ہوئی تھی ۔پنجاب پولیس نے کاروائی کرتے
ہوئے چھاپہ مارا اور ملزمان کو گرفتار کر
لیا ۔ پولیس حکام کی جانب سے کہا جا
رہا ہے کہ ملزمان کو پیر کے دن عدالت میں
حاضری کے لیے پیش کیا جائیگا۔
واضح
رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہرلاہورکے تھانہ نارتھ کینٹ میں سترہ جون کو
سوشل میڈیا پر ملزم کی کچھ فحش ویڈیوز
سامنے آنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی آئین کی شِق 377 کےمطابق درج ہونے والے مقدمے میں
ملزم مفتی عزیزالرحمان کی ضمانت پر رہا
نہیں کیا جا سکتا ، مگر جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے مقدمہ میں عدالت ملزمان
کو ضمانت پر رہا کر سکتی ہے۔
یاد
رہے کہ لاہور تھانے میں درج کی گئی درخواست کے مطابق شاگرد طالب علم نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ یہ نا زیبا واقعہ منظرِ عام پر لانے کے بعد انھیں
ملزم مفتی عزیزالرحمان کےبیٹوں کی جانب سے
جان سے مارنے کی مسلسل دھمکیاں موصول ہو
رہی ہیں۔متاثرہ طالب علم صابر کا کہنا تھا کہ ملزم کے بیٹوں کی جانب سے نقصان
پہنچانے کے لئے اسکا تعاقب بھی کیاگیا۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس کے لئے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے جس میں ملزمان سے پیشہ ورانہ طریقے سے سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی جائے گی۔ملزمان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عدالتِ عالیہ سے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے گی۔
انسپکٹر جنرل کا مزید کہنا
تھا کہ ہماری پولیس بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو عِبرت کا نشان بنا کر دَم
لے گی اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے معاشرے کو محفوظ بنائے گی ۔ یہاں یہ
با ت قابلِ ذکر ہے کہ لاہور کے متعلقہ
مدرسے کی انتظامیہ نے ملزم
مفتی عزیزالرحمان کو نوکری سے پہلے ہی نکال باہر کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب معاملات سوشل میڈیا پر وائرل
ہونے کے بعد ملزم کی سیاسی پارٹی نے بھی
ان سے اظہارِ لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔
واضح
رہے کہ ملزم مفتی عزیز الرحمان پنجاب کے شہرلاہور کے
مدرسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں معلم تھے، ان پر زیادتی کا الزام
عائد کرنے والا شاگرد بھی اسی مدرسے کا طالبِعلم ہے۔ لاہور
پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے کے مطابق متاثرہ شاگرد نے دعوٰی کیا ہے کہ ملزم
مفتی عزیز الرحمان پچھلے
چند عرصے سےاسے بلیک میل کر رہا تھا اور مسلسل زیادتی کا نشانہ بنا کر گناہ
کا مرتکب ہو رہا تھا۔ متاثرہ طالب علم نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ مدرسہ
انتظامیہ کو ملزم کی شکایت کرنے کے بعد ثبوت کے طور پر اسے ویڈیو ریکارڈ
پڑنا پڑی۔
سوشل
میڈیا کے پلیٹ فارم پر نازیبا ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پولیس مفتی عزیز الرحمان سےتفتیش کرنے مذکورہ مدرسے گئی
تھی لیکن ملزم وہاں نہ مل سکے۔ مدرسہ انتظامیہ نے پولیس کو بتایا تھا کہ
محلے کے کچھ لوگوں نے ان ویڈیوز کی بابت مدرسہ انتظامیہ کو مطلع کیا تھا جس
کی بنا پر ملزم کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا۔اور وہ مدرسہ چھوڑ کر
چلے گئے تھے۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ہی ملزم مفتی عزیز الرحمان نے چند متضاد بیانات دیے تھےجس میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنھیں نشہ آور شے دے کر ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور جو نا زیبا ویڈیوز ریکارڈ کی گئیں وہ نشے کے اثرات کی وجہ سے تھیں۔ ملزم کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ویڈیوز کچھ سال پہلے بنائی گئی تھیں ۔
صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایک مدرسہ میں رُونما ہونے والے واقعہ کےپیشِ نظر متاثرہ طالبِ علم نے لاہور پولیس کو کیا بیان دیا ؟
متاثرہ
شاگرد صابر نے لاہور پولیس کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے سال 2013ء
میں مدرسہ "منظور الاسلامیہ"
میں ایڈمیشن لیا تھا اور مسلسل اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب
وہ درجہ چہارم (رابعہ) میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اُس وقت کے نِگران
مُفتی نے ایک اور طالب علم سمیت اُن پر امتحانات میں کاپی کرنے کا الزام عائد کیا تھا ، جِس کے پیشِ نظر وفاق المدارس کی جانب سے تین برسوں کے لئے
پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
اُنھوں
نے پنجاب پولیس کو بیان دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ مزکورہ مفتی نے الزام عائد کیا
تھا کہ میں نے امتحانات میں اپنی جگہ کسی اور طالب علم کو بٹھایا تھا جبکہ میں نے مُفتی صاحب کی بہت مَنت
سماجت کی تھی مگر وہ نہیں مانے تھے ۔ مگر اُنھوں
نے مجھے بولا تھا کہ اگر میں اُن کے ساتھ بدکاری کرو ں اور انھیں خُوش
کر دوں تو وہ مُجھے امتحانات میں پاس کروا سکتے ہیں ۔
متاثرہ
طالب علم کا پنجاب پولیس کو بیان دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ملزم مُفتی
عزیزالرحمان نے اُن سےبولا تھا کہ اگر میں انھیں بدکاری کرنے
دیا کروں تو وہ مجھ پر وفاق المدارس کی جانب سے لگی ہوئی پابندی بھی ہٹوا دیں گے اور امتحانات میں
کامیاب بھی کروا دیا کریں گے۔
مدرسہ
منظور الاسلامیہ کے متاثرہ طالب علم کے مطابق اس طرح وہ مجبوری کے تحت ملزم
عزیزالرحمان کی گھناؤنی چالوں اور جنسی استحصال کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ تین سالوں
تک بد فعلی کا نشانہ بنانے اور جِنسی استحصال کرنے کے
باوجود ملزم نے اپنی بات پوری نہ کر سکا اور شاگرد کو مزید بلیک میل کرتا
رہا ، تین سالوں تک بلیک میل ہونے کے بعد
تنگ آ کر متاثرہ طالب علم نے مدرسہ منظور الاسلامیہ کی انتظامیہ کو شکایت کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی
صاحب کے گھناؤنے عمل کے متعلق
انتظامیہ کو آگاہ کر دیا۔
متاثرہ طالب علم نے مایوس ہو کر زیادتی کرنے کے دوران خفیہ ویڈیوز خود بنائیں۔
متاثرہ
شاگرد صابر کا پنجاب پولیس سے کہنا تھا کہ مدرسہ منظور الاسلامیہ
لاہور کی انتظامیہ نے ان کی بات پر یقین
ہی نہیں کیا تھا اور مدرسہ انتظامیہ نے
انکوائری کرنے کی بجائے کہا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں وہ ایسا قبیح
فعل سر انجام نہیں دے سکتے اور انتظامیہ کے افراد مجھے جھٹلاتے رہے۔ تب میں
نے مایوس ہو کر خود اس واقعہ کی خفیہ ویڈیوز ثبوت کے طور پر ریکارڈ کیں ۔اُنھوں نے پنجاب پولیس
کو بیان ریکارڈ کروایا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کے ثبوت وفاق المدارس العربیہ کے ناظم
مولانا حنیف جالندھری کے سامنے بھی پیش
کیے گئے مگر انھوں نے بھی
میری بات کا یقین نہیں کیا اور مُفتی صاحب
نے قتل کروانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں اور جب ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل
ہو گئی تو وہ بہت خوفزدہ ہو گئےتھے۔
متاثرہ شاگرد کی اُستاد مفتی کے ساتھ فحش ویڈیو منظرِعام پر آنے کے بعد کیا ہوا؟
متاثرہ
طالب علم صابرنےتھانے میں بیان ریکارڈ کرواتےہوئے پولیس کو بتایا ہے
کہ ملزم اُستاد مفتی ہر جمعہ
کے روز اُنھیں دس یا گیارہ بجے بلاتے تھے اور انھیں بدکاری کا نشانہ بناتے تھے۔ متاثرہ شاگرد نے آڈیو کالز کی چند ریکارڈنگ ثبوت کے
طور پر بھی پنجاب پولیس کومہیا کیے ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ملزم کیسے اُنھیں
مسلسل بدفعلی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔
سارے
ثبوت سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا اور مدرسہ کی انتظامیہ نے مبینہ ملزم مفتی کو
مدرسے سے نکال دیا اور ملزم کی مدرسہ سے لا تعلقی کا اعلان کیا ہے ۔ طالب علم
کا مزید کہنا تھا کہ مدرسے سے نکالے جانے پر مفتی عزیزالرحمان کی جانب سے سخت غصے کا اظہار کیا گیا جبکہ اُن کی اولاد کی
جانب سے قتل کرنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں ۔
متاثرہ طالب علم کی جان کو شدید خطرہ
مدرسہ منظور الاسلامیہ لاہور کے بدفعلی سے متاثرہ طالب علم نے پنجاب پولیس کو بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ اُنھیں مفتی اور ان کے بیٹوں کی طرف سے قتل کیے جانے کا خوف ہے، اُنھوں نے بتایا کہ جس روز مفتی عزیز الرحمان کو مدرسہ سے فارغ کیا گیا اس کے ایک دن بعد جب وہ کسی کام سے مدرسے سے باہر نکلے تو ملزم کی تین اولادوں اورکچھ نامعلوم لوگوں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے کہا کہ اِسے پکڑ کر دبوچو یہ کسی صُورت بھاگنے میں کامیاب نہ ہونے پائے، آج اِس کا قصہ ہی ختم کردیتے ہیں تو طالب علم نے خوف زدہ ہو کر دوڑ لگا دی اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
اُستاد ملزم مفتی عزیز الرحمان کا تعلق کس علاقے سے ہے؟
ملزم مُفتی عزیز الرحمان لاہور کے رہائشی ہیں اور تقریباً پچیس سالوں سے مدرسہ "منظور الاسلامیہ" میں بطورِ معلم اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ مُفتی صاحب کا شمار مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علما اسلام کے سر گرم رُکن کے طور پر بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن اُن کی سیاسی جماعت نے اس گھناؤنے فعل کا راز افشا ہونے کے بعد اپنے انتہائی سرگرم رُکن سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اپنی پارٹی کو براءت دلا دی ہے اور اُن کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی ہے۔سیاسی پارٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جب تک ملزم کے خلاف انکوائری کا عمل پورا نہیں ہو جاتا تب تک وہ جماعت کی ہر سطح کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیے جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment