بگرام ایئربیس : ایئر فورس بیس رات کی تاریکی میں خالی کیاگیا۔ افغان عسکری حکام کے انکشافات
ایئر بیس خالی کرنے سے پہلےپورے بیس کی روشنیاں گل کر دی گئیں، افغان حکام کو2گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ امریکی فوجی
چلے گئے ہیں، شمالی اتحاد کے سابقہ علاقے ایک با ر پھر طالبان کے زیرِاثر۔ افغان
کمانڈر جنرل میر اسد اللہ کوہستانی
کابل (نیوز اپڈیٹ) افغانستان کے عسکری حکام کی
جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے بگرام ایئرفورس بیس رات کے اندھیرے میں خالی کیا گیا جبکہ بیس کے مقامی افغان کمانڈرز کو مطلع نہیں کیا گیا اور انھیں
امریکی فوجیوں کے جانے کے 2 گھنٹے بعدمعلوم
ہوا۔
واضح
رہے کہ
بگرام ایئر بیس تقریباًبیس برس تک امریکہ کے کنٹرول میں رہی ۔ بگرام ایئر بیس کے افغان کمانڈر جنرل
میر اسد اللہ کوہستانی کا کہنا تھا کہ امریکیوں نے بیس چھوڑتے لمحے پورے بیس کی لائیٹیں بند
رکھیں ۔ افغانی کمانڈر نے بتایا
کہ ہمیں افواہیں موصول ہوئی تھیں کہ امریکی
فوجیوں نے بگرام ایئر بیس خالی کر دیا ہے، البتہ جب ہم صبح 7 بجے وہاں پہنچے تو اس بات کی تصدیق ہوئی
کہ امریکی تو پہلے ہی جا چکے ہیں ۔
ان
کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے ایئر بیس
خالی کرنے کے بعد انھوں نے
بیس کے وسیع و عریض علاقے کا
معائنہ کیا۔ امریکیوں نے ایئربیس میں
پینتیس لاکھ کی چیزیں چھوڑی ہیں جن میں منرل واٹر کی ہزاروں بوتلیں، مشروبات کے پیکس اور تیار خوارک کےکئی پیکٹس شامل ہیں۔
![]() |
US Forced Quit Main Afghan Base Bagram |
واضح رہے کہ افغانی فوجیوں نے امریکیوں کے بگرام ایئرفورس بیس چھوڑنے کے طریقہ کار پرسخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک افغان فوجی نعمت اللہ نے کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جس انداز میں بیس کو خالی کیا ہے اس سے اس کی بِیس سالہ ساکھ سخت متاثر ہوئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا جو افغان فوجی بیس سے باہر ڈیوٹی پر تھے انھیں بھی امریکیوں کی جانب سے بیس خالی کرنے کا پتہ نہ چل سکا۔
![]() |
Security Forces around Bagram Base |
ایک اور افغان فوجی عبدالرؤف کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں کی روانگی سے 20 منٹ بعدبجلی بند ہو گئی تھی اور پورے بیس میں اندھیرا چھا گیا تھا، جس کے بعد مقامی لوگوں کی جانب سے لوٹ مار کا عمل شروع ہو گیا تھا ۔ دوسری جانب امریکی فوج کے کرنل سونی لیگیٹ نے افغانی فوجیوں کی شکایات پر توجہ نہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے ہم نے افغان رہنماؤں کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا۔
افغان
کمانڈر جنرل میر اسد اللہ کوہستانی نے بتایاکہ بگرام ایئر فورس بیس کا رقبہ ایک چھوٹے
شہر جتنا ہے۔ بیس کے اندر کشادہ سڑکوں کے علاوہ
بیرکیں اوربڑی عمارتیں بھی تعمیر ہیں۔ اڈے پر 2 رن وے ہیں اور لڑاکا جہازوں کے 100 سے زیادہ پارکنگ اسپاٹ موجود ہیں ۔ ان کے گرد بم پروف دیواریں بھی بنی ہوئی ہیں، ایک رن وے باہ ہزار فٹ لمبا ہے اور اسے سنہ 2006ء میں بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسافروں کے لئے لاؤنج، ایک اسپتال جس میں پچاس بستروں کی گنجائش موجود ہے اور ہینگر کے سائز کے بڑے بڑے ٹینٹس بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق بگرام ایئربیس خالی کرتے ہوئے امریکیوں نے جو سامان
چھوڑا ان میں ہزاروں گاڑیاں بھی شامل ہیں جن میں بعض بغیر چابی کے بھی اسٹارٹ ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ سینکڑوںمسلح گاڑیاں بھی ہیں۔ دوسری جانب شمالی افغانستان میں طالبان کی پیش
قدمی جاری ہےاور ہ پچھلے دو دنوں میں سینکڑوں افغانی فوجی لڑائی کے دوران پڑوسی ملک تاجکستان بھاگ گئے ہیں۔
![]() |
American left huge number of vehicles at Bagram Base |
طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے ایک ہزارافغانی فوجیوں کے تاجکستان کیطرف فرار ہونے کے باعث تاجکستان کے صدر ایمومالی راخموں نے پچھلے دن حکم دیاتھا کہ افغانی سرحد پر بیس ہزار ریزرو عسکری دستوں کو متحرک کیا جائے۔ تاجک صدر نے ملکی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اپنے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔
واضح رہے کہ تاجکستان میں روس کی ایک بڑی تعداد میں فوج موجود ہے۔ افغانی فوجویوں کے ہتھیار ڈالنے پر افغان کمانڈر جنرل میر اسد اللہ کوہستانی کا کہنا تھا کہ جنگ میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک قدم آگے بڑھا جاتا ہے اور کبھی کچھ قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا افغانی فوج اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہی ہے۔ ان کے مطابق آنے والے دنوں میںوہ ان ضلعوں کوایک بار پھر حاصل کرلیں گے جہاں طالبان نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ افغانی جنرل نے مزید کہا کہ امریکہ اورنیٹوکی افغانستان میں تقریباً بیس برس موجودگی قابل ستائش ہے، لیکن ابھی وقت ہے کہ افغانستان کوعوام کے بہترین مستقبل کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی مشکالات کو حل کرتے ہوئے وطن کو محفوظ بنانا ہے اور ایک بارپھر اپنے ہاتھوں سے اپنےوطن کو بنانا ہے۔
دوسری طرف طالبان کے حملوں
میں نہ صرف شدت آرہی ہے بلکہ روزبروز ان کے مقبوضہ علاقوں میں اضافہ ہوتاجا رہا ہےگزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے ایک سو تریپن ضلعوں پر قبضہ کرنے کا دعوی سامنے آیا تھا۔ امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے ہی طالبان کی طرف سےتمام ملک میں
پیش قدمی کی گئی جس سے زمینی صورتِ حال
میں آئے دن نئی نئی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ افغانستان کے بیشتر علاقوں قندوز، تخار، فریاب، بدخشاں اور پکتیا میں
افغانی فوجیوں نے بغیر کسی مزاحمت کیے ہتھیار ڈال دیے تھے اور
علاقوں کو خالی کر دیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے سابق ہیڈکواٹرقندھار پر بھی مکمل کنٹرول کی خبریں سامنے آرہی
ہیں جبکہ ملک کے حکومتی عہدیدار افغانستان سے فرار کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فوج اور سول کے اعلی حکام
جن کے پاس دوہری شہریت ہے وہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔
دوسری جانب ایک امریکی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ طالبان نےحالیہ دور میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مقامی غیر پشتون لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے جن میں سے اکثر اہم فوجی
عہدوں پر بھی اپنے فرائض سر انجام دے چُکے
ہیں۔ تاجک النسل افغانی قاری فصیح الدین شمالی علاقہ جات میں طالبان کی کارروائیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ صوبہ بدخشاں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سراج الدین
حقانی سربراہ ملٹری کمیشن کے معاون خصوصی کےفرائض بھی انہی کی ذمہ داریوں میں شامل
ہے۔
عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کی پیش قدمی کی ایک بڑی وجہ افغانی فوج اور سیاسی رہنماؤں کے مابین اعتماد کی کمی بھی ہے۔ملک میں اعلی عہدوں پرفائز متعدد افسران کے دہری شہریت ہےجن میں سے بیشتر مشکل وقت سے قبل
ہی ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں ۔دوسری جانب طالبان نے ان تمام افراد کے
لیے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے جو خود ہتھیار ڈال دیں گے جبکہ طالبان ہتھیار ڈالنے والوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں ہیں ۔ دارالحکومت کابل تک محدود صدر اشرف غنی کے ہاتھوں سے معاملات نکلتے ہوئے دکھائی
دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ کئی افغانی فوجیوں نے بغیر لڑائی کیے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر
ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان
نے ترکمانستان اور تاجکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں کے متعدد ضلعوں میں قبضہ کر کے سرحدی چوکیوں کا مکمل کنٹرول اپنے جنگجوؤں کو
سونپ دیا ہے۔
دوسر ی جانب صدر اشرف غنی کے ہاتھوں سے حکومت جاتی دیکھ کر پورے
ملک میں کھانے کی اشیاء میں کمی اور
مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ مزار شریف میں 1 لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 38 افغانی سے
اضافہ ہو کر 55 افغانی ہو گیا ہے۔ دوہری شہریت رکھنے والے تاجرجو امریکی
افواج کو اشیائے خوردونوش مہیا کرتے تھے
وہ ملک کو خیر آباد کہہ رہے ہیں ۔
![]() |
Afghan President Ashraf Ghani |
ذ رائع کے مطابق مہنگائی کے علاوہ افغانی کرنسی کی قدر بھی گرنا
شروع ہو گئی ہے ۔ سیاسی محاذپرتو طالبان
کی حکمت عملی میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں
آرہی ہے لیکن فوجی محاذپر ان کی حکمت عملی ویسی ہی ہے جیسے پہلے
تھی اور جنگی حملوں میں شدت بالکل بھی کم نہیں ہوئی ۔ اس صورتحال میں افغانی صدر اشرف غنی کے اپنے بہت ہی قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑرہے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ بہت جلد صدر اشرف غنی بھی افغانستان چھوڑ کر امریکہ شفٹ ہو جائیں گے کیونکہ وہ بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں اور اس سے قبل وہ عالمی بینک میں ملازم تھے اور واشنگٹن میں تعینات تھے جبکہ دوسری جانب ان کی اہلیہ رولہ غنی لبنانی نژاد امریکی خاتون ہیں ۔
No comments:
Post a Comment