میجر جنرل منظور احمد کیپاکستان آرمی سے برطرفی: درخواست مسترد
پاکستان آرمی کے سابق میجر جنرل منظور احمد کی قبل ازوقت ریٹائرمنٹ(مبینہ برطرفی) کے خلاف درخواست لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔
لاہور
(نیوز اپڈیٹ) جسٹس عاصم حفیظ جو کہ
لاہور ہائی کورٹ "راولپنڈی بینچ"کےجج تعینات ہیں، انھوں نے پاک آرمی کےسابقہ میجرجنرل کی درخواست قانون کی شق-199کےتحت مستردکرتےہوئےنمٹادی ۔معزز جج صاحب کا کہنا تھا کہاگرکسی
فوجی کا کیس اس کی نوکری کے متعلق ہے تو اس بابت سول کورٹ کوئی حکم جاری نہیں کر
سکتا۔
درخواست
گزارنےپاک آرمی سے اسکی قبل از وقت
ریٹائرمنٹ کو (جبری برطرف) کرنے کا دعویٰ
کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاک فوج کےاعلی
حکام کی طرف سے مجھے صدرِ پاکستان کو پروموشن پالیسی
کے متعلق لیٹر لکھنے کے جُرم میں سزا کے طور پر پاک آرمی سے برطرف کیا گیا
ہے۔
ذ
رائع کےمطابق میجر جنرل نےاس سے پہلے برطرفی کے خلاف اسلام
آباد ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کٹھکٹھایا تھا مگرچیف جسٹس( اسلام آباد ہائی کورٹ )نے یہ کیس
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت سے باہر کہہ کر نمٹا دیاتھا اور درخواست گزار کو لاہور ہائی کورٹ سے
رجوع کرنے کی تجویز دی تھی ۔
منظور
احمد کے وکیل عابد ساقی کے مطابق معزز عدالت
کیجانب سے انکو درخواست مسترد کیے جانے کےمتعلق تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ وکیل
کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل
سابق میجر جنرل منظور احمد سے مشاورت کے بعد دائر کی جائیگی۔
اس
سے قبل میجر جنرل نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے خلاف صدرِ
پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس کی پاداش میں سینئر فوجی حکام کی جانب سے اُنھیں
ریٹائرمنٹ سے برطرفی کی طرف انتقامی کروائی کرتے ہوئے دھکیلا گیا۔
یاد
رہے کہ میجر جنرل منظور احمد کو جون کے شروع میں پاک آرمی سے برطرف کیا گیا تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے
دوران انھوں نے اپنی برطرفی کو غیر آئینی
اور نا انصافی پر مبنی قرار دیا تھا۔ فوج میں میجر جنرل کے رینک سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے طریقہ کار پر اُنگلی
اُٹھاتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ فوج
میں اسٹار رینکس میں پروموشن کا
کوئی واضح اور شفاف میرٹ موجود نہیں ہے۔ جبکہ فوجی ذرائع کا منظور احمد کے ان الزامات کی سختی سے تردید
کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صرف فوج ہی تو
ایسا ادارہ ہےجہاں میرٹ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
پاک فوج سے برطرف کئے گئے سابق میجر جنرل منظور احمدکے معاملہ کی تفصیلات
پاک
فوج سے برطرفکئے گئے سابقہ میجر جنرل منظور احمد کا ذرائع کو
بتانا تھا کہ انھیں ملٹری سیکریٹری کیجانب
سے 29 جون 2020کو ریٹائرمنٹ کے احکامات بذ
ریعہ خط موصول ہوئے تھےجس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ان کی سروس مکمل ہونے پر معمول کی ریٹائرمنٹ کی منظوری درج تھی
۔جس کے بعد انھوں نے بھاگ دوڑ کا آغاز کر دیا تھا اور اُن
کی جبری ریٹائرمنٹ کے متعلق وفاقی حکومت
کو سنہ جولائی 2020ء کو بذریعہ خط مطلع کیا۔تاہم یہ خط صدر ِپاکستان کوارسال
کرنے کی بجائے ملٹری سیکریٹری کی طرف سے
جی ایچ کیوانکوائری کے لیے بھیج
دیا گیا۔
سابقہ
میجر جنرل منظور احمد کا بتانا تھا ایجوٹینٹ جنرل نے انھیں سیکریٹریٹ بلا یا اور اُن کے سامنے 2 آپشن رکھے جن میں پہلا یہ تھا کہ مذکورہ خط کو واپس لے لوں یا پھر برطرفی کے ساتھ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤں۔ اور جب اِن کی جانب سے اِن دونوں آپشنز کو خاطر میں نہ لایا گیا تو ڈپٹی ملٹری سیکریٹری نے میجر جنرل کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور متعلقہ انکوائری کو
التوا میں ڈال دیا گیا۔
اُن کے مطابق انھیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور بعد میں برطرفی کی وجہ نہیں بتائی گئی جو کہ سراسر آرمی ایکٹ کے خلاف ہے اور حکام کی جانب سے میرے خلاف انتقامی کاروائی ہے۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کے 6 ماہ بعد 9 مارچ 2021 کو انسپکٹر جنرل آرمز نے طلب کرنے کے بعد نوکری سے برطرفی کا نوٹیفکیشن دے تاہم اس نوٹیفکیشن میں کوئی فرد جرم عائد نہیں تھا اور نہ ہی برطرفی کی کوئی وجہ بیان تھی ۔ اور اسی وجہ سے انھیں وفاقی حکومت اور معزز عدالت کا دروازہ کٹھکٹھانہ پڑا۔
فوج کے سابقہ میجر جنرل منظور احمد کے فوجی پروموشن پالیسی پر تحفظات کی وجوہات؟
پاک
آرمی کےسابق میجر جنرل منظور احمد نے بتایا کہ انھوں نے آرمی میں میجر جنرل کے
رینک سے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں پروموشن
کے طریقہ کار پر حکامِ بالا سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اُن کے
مطابق انھوں نے پروموشن پالیسی میں پاکستان کے مختلف علاقوں یا ڈومیسائیل
کا خیال نہ رکھے
جانے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو
شکایت کی تھی ۔ اور اسٹارز رینکس میں ترقی
کےمیرٹ پر کچھ سوالات اٹھائےتھے۔ منظور احمد نے کہا کہ اُن کی
اِن تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اُن
کے خلاف ہی انتقامی کاروائی کرتے ہوئے
انھیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔
فوج
کے سابق میجر جنرل، منظور احمد نے بیان
دیتے ہوئے اپنے بارے میں مزید بتایا کہ وہ 35 برس کی سروس میں فوج میں کئی اہم ذمہ داریوں
پرتعنیات رہے جن میں6 ماہ تک لیفٹیننٹ
جنرل کے معیار کے ایک عہدے انسپکٹر جنرل (آرمز )پر بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دی،
تاہم انھیں لیفٹیننٹ جنرل رینک میں پروموٹ کرنے کی بجائے برطرفی کی طرف دھکیل دیا
گیا۔
ان
کے وکیل کے مطابق سابق میجر جنرل کے خلاف
فوج میں دھڑے بندی ہوئی اور ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی بدولت پاک آرمی سے
برطرف کیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ گروپ بندی
کرنے والے افسروں کا نام نہیں بتایا گیا۔ میجر جنرل منظور احمد نے فوج پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ 3 سال پہلے بھی ان کے
اور ان کے خاندان کے خلاف انٹرنیٹ پر باقاعدہ
منظم طریقے سے ایک مہم چلائی گئی۔
واضح
رہے کہ سنہ 2015 میں منظور احمد کو لیفٹیننٹ
جنرلز شمشاد مرزا، شاہین مظہر محمود، ندیم
ذکی منج اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ہی میجر
جنرل کے رینک پر پروموٹ کیا گیا تھا۔برطرف
کئے گئے میجر جنرل منظور کےاحمد نے مزید کہا کہ انھوں نے کسی سنگین ضابطہ کار کی
خلاف ورزی نہیں کی اور نہ ہی اُن کے خلاف ملکی راز فاش کرنے کا کوئی مقدمہ بنا ہے۔
اس صورتحال میں ان کو برطرف کیا جانا اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سےایک غیر آئینی عمل
ہے۔
دوسری
جانب فوجی حکام کے مطابق فوج میں میرٹ کا
ایک باقاعدہ نظام موجود ہے اور اہم ذمہ
داریوں پرتقرری علاقائی بنیادوں پر نہیں
بلکہ اوپن میرٹ سسٹم کے مطابق کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق صرف منظور احمد ہی واحد
افسر نہیں ہیں کہ جنھیں اگلے رینک میں
پروموٹ نہیں کیا گیا بلکہ پاک آرمی میں 12
سے زیادہ میجر جنرلز ہیں جنھیں پروموٹ
نہیں کیا گیا۔
اعلی
عسکری حکام کے مطابق فوج میں سپاہی، حوالدار اور صوبیدار کے رینکس کی بھرتی و ترقی میں علاقے اور صوبے کا خیال رکھا جاتا ہے تاہم افسران کی سطح
پر اُن کی کارگردگی کو پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ جبکہ اعلی افسران کی تقرری
پر وار کورس میں خاص حد تک نمبروں کا حصول بھی ضروری
ہو تا ہے۔ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف اور اعلیٰ افسران سے مشاورت کے بعد ہی ترقی دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
عسکری
ذرائع نے مزید بتایا کہ کچھ ایسے بھی افسران ہوتے ہیں جن کے خلاف انٹیلیجنس اداروں کی
رپورٹس ہوتی ہیں جن میں یہ واضح کیا جاتا ہے ان کی ترقی کے سفر
کو روک دیا جائے کیونکہ اُن کے خلاف فوج میں منافرت پھیلانے کی شکایات ہوتی ہیں
جبکہ اس بارے میں متعلقہ افسر کو آگاہ کرنا ضروری نہیں ہوتا اور بعض اوقات سنگین
معاملات میں جواب طلبی کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment